عورتوں اور فوجیوں کی ایک خاص بات جو کسی عام انسان میں نہیں ہوتی
عورتوں اور فوجیوں میں ایک خاص بات ہوتی ہے جو شاید کسی اور عام انسان میں نہیں ہوتی، اسی حوالے سے ایک نامور سابق آرمی افسر اور مشہور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان نے اپنے ایک کالم میں تذکرہ کیا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان کے مطابق وہ ایک چیز "چھٹی حِس" ہے۔ غلام جیلانی لکھتے ہیں کہ آج تک پوری طرح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ چھٹی حس کا عقلی اور منطقی منبع کہاں ہے اور یہ کس طرح کام کرتی ہے لیکن بعض طبی تجربات نے اس سلسلہ میں بعض تفصیلات اکٹھی کی ہیں جو آگے آئیں گی۔
بعض لوگوں میں یہ حس حد سے بڑھی ہوتی ہے اور بعض میں بالکل ہوتی ہی نہیں۔ اسی چھٹی حس کو وجدان (Intuition) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے تجزیئے کے مطابق یہ بات بہت دلچسپ معلوم ہوگی کہ عورتوں اور فوجیوں میں وجدانی کیفیات کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ مختلف ٹیسٹوں سے یہ بات بھی پایہء ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جب صورتِ حال زیادہ بے یقینی ہو، مشکلات کا گھیراؤ زیادہ ہو، وقت کم ہو اور مطلوبہ معلومات کی دستیابی غیر تسلی بخش ہو تو ایسے عالم میں وجدان کی بنیاد پر کئے گئے کمانڈ فیصلے کہیں زیادہ موثر،بہتر اور مفید ہوتے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل صاحب نے مزید لکھا کہ عسکری تاریخ سے اس کی شہادت کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وجدان کو کب استعمال کیا جائے؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ وجدان کی قوت سے اگرچہ سارے تندرست انسان متّصف ہوتے ہیں لیکن بہت کم عسکری کمانڈر ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ کریم نے وجدانی قوت فراوانی سے عطا کر رکھی ہوتی ہے۔
وجدان پر مبنی کمانڈ فیصلوں کو تین اقساط میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا: بعض کمانڈر سابقہ معلومات، تجربات اور اعداد و شمار کے بغیر محض وجدانی قوت کے سہارے اس فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرا: بعض کمانڈر تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد کچھ دیر تک ان پر تفکر، تدبر اور استغراق کرتے ہیں اور پھر اس عالمِ استغراق میں ایک وجدانی فیصلے پر پہنچتے ہیں۔ تیسرا: بعض کمانڈر اپنی لاشعور اور شعوری معلومات پر باقاعدہ غور و خوض کرکے وجدان کی طرف رجوع کرتے اور وہاں سے رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔
وجدان کی قوت پر مبنی ان کمانڈ فیصلوں کی ان تینوں اقسام پر عسکری تاریخ میں بہت سا مواد ملتا ہے۔ تاہم ہم ان کی ایک ایک مثال دے کر اس نکتے کی وضاحت کریں گے۔
پہلی مثال: بعض کمانڈر بغیر کسی سابقہ عسکری تجربے کے محض وجدان کے سہارے ایک ایسا کمانڈ فیصلہ کرنے پر قادر ہوئے جس کا نتیجہ حیرت انگیز کامیابی کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے نہ تو عام معلومات کی فراہمی کی پروا کی، نہ اعداد و شمار کی کمی بیشی سے خائف ہوئے اور نہ زیادہ عرصہ غور و خوض میں صرف کیا بلکہ بے خطر اور جھٹ پٹ آتشِ نمرود میں کودگئے۔ یہ وجدان کی اعلیٰ ترین قسم تھی۔ مجاہداعظم نبی مکرمﷺ کی ذات میں اس مثال کی بین جھلک اور ثبوت موجود ہے۔ ایک ایسی ہستی جس نے پہلے کبھی جنگ و جدل کی کوئی ٹریننگ ہی حاصل نہ کی ہو، جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر آیا ہو اور جو سرتاپا عفو و کرم اور جو دوسخا ہو اس کو بارگاہِ خداوندی سے حکم ملے کہ اپنے پہلے تبلیغی رویئے کو چھوڑ کر کافروں کے لیے تادیبی رویہ اپنایئے اور پوری مسلمان قوم کو میدانِ جنگ میں اتارنے کے لیے کمر باندھ لیجئے تو یہ ایک انتہائی مشکل چیلنج ہوگا۔ لیکن سرکارِ دو عالم مجاہد اعظم ﷺ کو اپنی اشاعتِ اسلام کی حکمت عملی کو 180 ڈگری تبدیل کرنا پڑا۔ سن 2 ہجری سے لے کر آنحضورؐ کی وفات تک درجنوں غزوات اور سریات لڑے گئے۔ ان میں تمام عسکری چالوں کو آزمایا اور برتا گیا۔ خندقی جنگ و جدل کی ابتداء، میدانِ جنگ کا انتخاب، انصرامی (Logistic) پہلوؤں کی دیکھ بھال، ٹیکٹکس (Tactics) کا استعمال، ہتھیاروں اور ساز و سامان کا انتخاب، وقت اور فاصلے کا درست تعین، گروپس کی صف بندی، حساس مقامات اور عقبی علاقوں کی حفاظت، اندرونِ شہر سیکیورٹی کے نظام کی ابتداء، جنگی قیدیوں سے سلوک کی حکمت عملی، مال غنیمت کی تقسیم، ڈسپلن، شہیدوں کی تدفین، عسکری مجلس شوریٰ کا قیام، مورال کے تمام تقاضوں کی تکمیل اور لام بندی کے انتظامات۔ الغرض وہ کون سا عسکری شعبہ اور پہلو تھا جس میں آپؐ نے تخلیق کاری اور وجدان سے بدرجہ اتم کام نہ لیا۔
دوسری مثال: ایک عرصہ تک غور و فکر اور تفکر و استغراق کے بعد وجدانی فیصلے کرنا بعض معروف کمانڈروں کا خاصہ رہا ہے۔ سکندراعظم نے اپنا آخری معرکہ دریائے جہلم کے کنارے لڑا۔ دوسرے کنارے پر راجہ پورس کی ٹڈی دل فوج موجود تھی۔ ادھر یونانیوں کے سامنے دریائے جہلم ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور دوسرے کناروں پر پورس کے ہاتھی قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے گھڑ سوار رسالے کی یونٹیں تھیں اور پھر انفنٹری کے ڈویژن تھے۔ خود پورس قلبِ لشکر میں ایک نہایت مضبوط فورس کے ساتھ موجود تھا۔ سکندر کئی روز تک دریا کے گھریلو کنارے پر خیمہ زن رہا اور عبورِ آب کی تدابیر پر غور و غوض کرتا رہا۔ کنارے کے ساتھ ساتھ کئی کئی فرلانگ آگے پیچھے جا کر ریکی کی اور پھر ایک ایسا مقام دریافت کر لیا جو اگرچہ عبور کے لیے مشکل تھا لیکن اس سے ناگہانیت (سرپرائز) کا عنصر ضرور حاصل ہو سکتا تھا۔ سکندر کے وجدان نے فیصلہ کیا کہ اگر اس مشکل مقام سے دریا عبور کیا جائے تو پورس کے دیکھ بھال کرنے والے دستے شاید وہاں زیادہ چوکس اور مستعد نہ ہوں۔ سکندر کے عسکری مشیر اور ماتحت کمانڈر اسے یہی مشورہ دیتے رہے کہ یہ مقام، عبورِ دریا کے لیے مناسب نہیں۔ سکندر پہلے تو گومگو کی کیفیت میں گرفتار رہا۔ لیکن آخر کار اس کے وجدان نے فیصلہ کیا کہ دریائے جہلم کو اگر اس مقام سے عبور کرکے پورس کی فوج پر شب خون مارا جائے تو کامیابی کے امکانات بہت روشن ہیں۔ چنانچہ اس نے عام روش سے ہٹ کر، اپنے ماتحت کمانڈروں کی رائے کے برعکس اور پورس کے کمانڈروں کی توقعات کے برخلاف جس جگہ سے دریا کو پار کرکے ناگہانی شبانہ حملہ کیا اس نے اسے ایک تاریخی کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ یہ کمانڈ فیصلہ سراسر سکندر کے وجدان کا رہون منت تھا۔
Comments are closed on this story.