'کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں'
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون کارکن سفینہ نبی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے بارے میں بھارتی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کرتے ہوئے سفینہ کا کہنا تھا کہ آئین میں ہمیں کچھ حقوق دئے گئے تھے اب ان حقوق کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
سفینہ نے برطانوی خبر رساں ادارے کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہماری بہتری کیلئے کیا گیا، تو ہم سے پوچھ کر کرتے، ہمیں اعتماد میں لے کر کرتے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیری لوگوں کیلئے یہ ایک جذباتی معاملہ بن چکا ہے۔ لوگ اب یہی کہتے ہیں، ابھی یا کبھی نہیں۔ لوگوں کے اب یہی جذبات ہیں یا تو ہم کچھ کریں کہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں۔ اگر ہم اب کچھ نہ کر پائے تو کبھی نہیں کر پائیں گے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ یہ آخری وقت ہے کچھ کرنے کا۔
سفینہ نبی کہتی ہیں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن پورا مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ حکومت سب کو قید میں ڈال کر فیصلے کر رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں لوگوں کی بے چینی، اضطراب اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں ہے۔ وہ ہر پل مر رہے ہیں۔ جب لوگ قید میں ہوں تو ان کے احساسات کیسے ہوں گے۔ ان کی کیفیت ایسی ہی ہے جیسے کسی پنجرے میں بلبل کو قید کر دیا گیا ہو۔
سفینہ کا کہنا ہے کشمیر کے لاک ڈاؤن میں عورتیں، مرد، بوڑھے سبھی اپنے اپنے طور پر مشکلوں سے گزر رہے ہیں۔ عورتوں اور نو عمر بچوں پر ان حالات کا سب سے گہرا اثر پڑتا ہے۔ اظہار کے سارے ذرائع چھین لئے گئے ہیں۔ جو جذبات ہیں وہ اندر ہی اندر ابل رہے ہیں۔ وہ کب پھٹیں گے یہ کسی کو نہیں معلوم ۔
سفینہ نے کہا کہ کشمیریوں میں مزاحمت کی قوت بہت زیادہ ہے اور یہ پہلی بار نہیں جب انھوں نے اس طرح کے حالات دیکھے ہوں۔ وہ ایک عرصے سے ایسے حالات دیکھتے چلے آئے ہیں۔ لیکن اس بار کچھ الگ ہی ہے۔ آپ نے کشمیریوں کے خصوصی حقوق ختم کر دیے، آپ نے فون بند کر دیا، انٹرنیٹ بند کر دیا، اسکول بند ہیں۔ کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے آپ لوگوں سے بات کر سکیں۔ لوگوں کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے جو جذبات ہیں وہ کم نہیں ہو رہے ہیں۔ کشمیر اب ایک غیر یقینی مستقبل کی گرفت میں ہے۔
Comments are closed on this story.